تفسير ابن كثير



سورۃ آل عمران

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ[187] لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ[188] وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[189]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپائو گے تو انھوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت لے لی۔ سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں۔ [187] ان لوگوں کو ہر گز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انھوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے، پس تو انھیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہر گز خیال نہ کر اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ [188] اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ [189]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں، تو پھر بھی ان لوگوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور اسے بہت کم قیمت پر بیچ ڈاﻻ۔ ان کا یہ بیوپار بہت برا ہے [187] وه لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے [188] آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے [189]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور جب خدا نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار کرلیا کہ (جو کچھ اس میں لکھا ہے) اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا۔ اور اس (کی کسی بات) کو نہ چھپانا تو انہں نے اس کو پس پشت پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی۔ یہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں برا ہے [187] جو لوگ اپنے (ناپسند) کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور پسندیدہ کام) جو کرتے نہیں ان کے لئے چاہتے ہیں کہ ان ک تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے رستگار ہوجائیں گے۔ اور انہیں درد دینے والا عذاب ہوگا [188] اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی خدا ہی کو ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے [189]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 187، 188، 189،

بدترین خرید و فروخت! ٭٭

اللہ تعالیٰ یہاں اہل کتاب کو ڈانٹ رہا ہے کہ پیغمبروں کی وساطت سے جو عہد ان کا جناب باری سے ہوا تھا کہ حضور پیغمبر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور آپ کے ذکر کو اور آپ کی بشارت کی پیش گوئی کو لوگوں میں پھیلائیں گے انہیں آپ کی تابعداری پر آمادہ کریں گے اور پھر جس وقت آپ آ جائیں تو دل سے آپ کے تابعدار ہو جائیں گے لیکن انہوں نے اس عہد کو چھپا لیا اور اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کرنے پر جن دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا ان سے وعدہ کیا تھا ان کے بدلے دنیا کی تھوڑی سی پونجی میں الجھ کر رہ گئے ان کی یہ خرید و فروخت بد سے بدتر ہے، اس میں علماء کو تنبیہہ ہے کہ وہ ان کی طرح نہ کریں ورنہ ان پر بھی وہی سزا ہو گی جو ان کو ملی اور انہیں بھی اللہ کی وہ ناراضگی اٹھانی پڑے گی جو انہوں نے اٹھائی۔

علماء کرام کو چاہیئے کہ ان کے پاس جو نفع دینے والا دینی علم ہو جس سے لوگ نیک عمل جم کر سکتے ہوں اسے پھیلاتے رہیں اور کسی بات کو نہ چھپائیں، حدیث شریف میں سے جس شخص سے علم کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن آگ کی لگام پہنایا جائے گا۔ [سنن ابوداود:3658،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏
1434

دوسری آیت میں ریاکاروں کی مذمت بیان ہو رہی ہے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جھوٹا دعویٰ کر کے زیادہ مال کمانا چاہے اسے اللہ تعالیٰ اور کم کر دے گا، [صحیح مسلم:110] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم کی دوسری حدیث میں ہے جو نہ دیا گیا ہو اس کے ساتھ آسودگی جتنانے والا دو چھوٹے کپڑے پہننے والے کی مثل ہے، [صحیح بخاری:5219] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ اگر اپنے کام پر خوش ہونے اور نہ کئے ہوئے کام پر تعریف پسند کرنے کے باعث اللہ کا عذاب ہو گا تو ہم سے کوئی اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے پھر آپ نے «وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ» [3-آل عمران:183] ‏‏‏‏ آیت کے ختم تک تلاوت کی اور فرمایا کہ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے اس کا کچھ اور ہی غلط جواب دیا اور باہر نکل کر گمان کرنے لگے کہ ہم نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا جس کی وجہ سے آپ کے پاس ہماری تعریف ہو گی اور سوال کے اصلی جواب کے چھپا لینے اور اپنے جھوٹے فقرہ چل جانے پر بھی خوش تھے، اسی کا بیان اس آیت میں ہے، یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے۔ [صحیح بخاری:4568] ‏‏‏‏
1435

اور صحیح بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں تشریف لے جاتے تو منافقین اپنے گھروں میں گھسے بیٹھے رہتے ساتھ نہ جاتے پھر خوشیاں مناتے کہ ہم لڑائی سے بچ گئے اب جب اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹتے تو یہ باتیں بناتے جھوٹے سچے عذر پیش کرتے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے معذور ہونے کا آپ کو یقین دلاتے اور چاہتے کہ نہ کئے ہوئے کام پر بھی ہماری تعریفیں ہوں جس پر یہ آیت اتری۔ [صحیح بخاری:4567] ‏‏‏‏
1436

تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ مروان نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں اسی طرح سوال کیا تھا جس طرح اوپر گزرا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پچھوایا تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس کا مصداق اور اس کا شان نزول ان مناقوں کو قرار دیا جو غزوہ کے وقت بیٹھ جاتے اگر مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو بغلیں بجاتے اگر فائدہ ہوا تو اپنا معذور ہونا ظاہر کرتے اور فتح و نصرت کی خوشی کا اظہار کرتے اس پر مروان نے کہا کہاں یہ واقعہ کہاں یہ آیت؟ تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی اس سے واقف ہیں مروان نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ نے بھی اس کی تصدیق کی پھر سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کا علم سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو بھی ہے جو مجلس میں موجود تھے اونٹنیاں جو صدقہ کی ہیں چھین لیں گے باہر نکل کر زید نے کہا میری شہادت پر تم میری تعریف نہیں کرتے؟سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے سچی شہادت ادا کر دی تو سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں بھی سچی شہادت دینے پر مستحق تعریف تو ہوں مروان اس زمانہ میں مدینہ کا امیر تھا، دوسری روایت میں ہے کہ مروان کا یہ سوال رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے ہی پہلے ہوا تھا۔
1437

اس سے پہلے کی روایت میں گزر چکا ہے کہ مروان نے اس آیت کی بابت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پچھوایا تھا تو یاد رہے کہ ان دونوں میں کوئی تضاد اور نفی کا عنصر نہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیت عام ہے اس میں بھی شامل ہے اور اس میں بھی، مروان والی روایت میں بھی ممکن ہے پہلے ان دونوں صاحبوں نے جواب دیئے پھر مزید تشفی کے طور پر حبر الامہسیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروان نے بذریعہ اپنے آدمی کے سوال کیا ہو، واللہ اعلم،

سیدنا ثابت بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو اپنی ہلاکت کا بڑا اندیشہ ہے آپ نے فرمایا کیوں؟ جواب دیا ایک تو اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے روکا ہے کہ جو نہ کیا ہو اس پر تعریف کو پسند کریں اور میرا یہ حال ہے کہ میں تعریف پسند کرتا ہوں، دوسری بات یہ ہے کہ تکبر سے اللہ نے روکا ہے اور میں جمال کو پسند کرتا ہوں تیسرے یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند آواز کرنا ممنوع ہے اور میں بلند آواز ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تیری زندگی بہترین اور باخیر ہو اور تیری موت شہادت کی موت ہو اور تو جنتی بن جائے خوش ہو کر کہنے لگے کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے چنانچہ یہی ہوا کہ آپ کی زندگی انتہائی اچھی گزری اور موت شہادت کی نصیب ہوئی، مسیلمہ کذاب سے مسلمانوں کی جنگ میں آپ نے شہادت پائی۔ [مستدرک حاکم:234/3:حسن] ‏‏‏‏ «تَحْسَبَنَّهُمْ» کو «یَحْسَبَنَّهُمْ» بھی پڑھا گیا ہے۔
1438

پھر فرمان ہے کہ تو انہیں عذاب سے نجات پانے والے خیال نہ کر انہیں عذاب ضرور ہو گا اور وہ بھی درد ناک، پھر ارشاد ہے کہ ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر قادر اللہ تعالیٰ ہے اسے کوئی کام عاجز نہیں کر سکتا پس تم اس سے ڈرتے رہو اور اس کی مخالفت نہ کرو اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کرو اس کے عذابوں سے اپنا بچاؤ کر لو نہ تو کوئی اس سے بڑا نہ اس سے زیادہ قدرت والا۔
1439



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.